Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر


”آپ فکر مند مت ہوں، وہ ایسی نہیں ہے۔“

”مجھ سے زیادہ جانتی ہو تم عادلہ کو…؟ اس کی رگ رگ سے واقف ہوں… ماں کی طرح ہی اس نے حریصانہ و ناشکری طبیعت پائی ہے۔ وہ ٹاپس تمہاری ماں نے تمہارے لیے دیئے تھے۔“ وہ آہستگی سے آخری جملہ کہہ گئی تھیں۔

”دادی جان ! مما ایسی نہیں ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ تم اپنی چیز کسی کو نہ دو ، وہ تو پوچھتی بھی نہیں ہیں۔

”ہاں میں جانتی ہوں۔ اگر وہ تم کو منع کرے تم کون سی مان جاوٴ گی۔ تم تو ان میں سے ہو جو دوسروں کی خاطر اپنے پیٹ پر بھی پتھر باندھ لو، پھر بھی تمہیں ایسے بے حس لوگوں سے کوئی صلہ ملنے والا نہیں ہے۔“ وہ چائے پیتے ہوئے شفقت بھرے انداز میں کہہ رہی تھیں۔

”صلہ تو اللہ دیتا ہے۔ لوگوں سے امید رکھنا ہی غلط ہے۔
(جاری ہے)


”تم آگئی ہو تو گھر کیسا روشن روشن ہوگیا ہے وگرنہ مجھے تو لگ رہا تھا کسی ویرانے میں پڑی ہوں۔
“ باتوں کے دوران وہ گویا ہوئیں۔

”آپ کے لاڈلے طغرل صاحب نے لفٹ نہیں دی آپ کو؟ ان کی موجودگی میں آپ کو گھر ویرانہ لگ رہا تھا دادی جان!“

”وہ لڑکا ہے، تیری طرح چوبیس گھنٹے گھر میں نہیں بیٹھ سکتا، بہت ٹائم دیا ہے اس نے … بہت خیال رکھا ہے مگر آج کل وہ مصروف ہے کمپنی بنانے کے لیے جگہ دیکھنے میں…“ انہوں نے حمایت لیتے ہوئے کہا۔

”ان کو کمپنی بنانے سے زیادہ محبت ہے یا آپ سے…؟“

”یہ بے تکے سوال کیوں کررہی ہے تو ، آخر وجہ کیا ہے؟“دادی کے تیور بگڑتے دیکھ کر اس نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی تھی۔ وہ لاوٴنج میں بیٹھی رسالہ پڑھ رہی تھی جب وہ اندر داخل ہوا تھا۔

”ہوں… آپ تو معذرت کریں گی نہیں، امید رکھنا ہی فضول ہے۔“ کافی دیر تک جب پری نے اس کی طرف دیکھا نہیں تو اسے بولنا پڑا۔

”میں بلاوجہ معذرت کرنے کی عادی نہیں ہوں۔“ اس کے لہجے میں ازخود ہی کھردراپن درآیا تھا۔

”بلاوجہ ہی کیا اپ مجھے بوجہ بھی معذرت کرنے کی قائل دکھائی نہیں دیتی ہیں۔“ وہ اس کے سردمہر بے گانہ رویے کو محسوس کررہا تھا۔

”جو آپ سمجھیں !“وہ کہتی ہوئی کھڑی ہوئی۔

”جا کہاں رہی ہو؟ بیٹھو!“ وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ نیلی پینٹ سفید شرٹ میں اس کے وجیہہ چہرے کی سرخیاں نمایاں تھیں۔

”مجھے کام کرنا ہے۔“

”ابھی بیٹھی تم پڑھ رہی تھیں، جب تم کو کام یاد نہیں آرہا تھا۔ اب میں یہاں آیا ہوں تو تمہیں کام یاد آگیا ہے؟“ وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس سے کہہ رہا تھا۔ ”تمہیں کیا خوف ہے مجھ سے … کیا ڈر ہے جو میرے سائے سے بھی گریزاں رہتی ہو؟“ وہ اس کے قریب آکر استفسار کرنے لگا۔ اس کے ملبوس سے پھوٹتی مہک نے اس کو دور ہونے پر مجبور کردیا تھا۔

”میں کیوں خوف زدہ ہوں گی آپ سے…؟“

”پھر میرے ساتھ اتنا برا رویہ کیوں ہے؟“

”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرا رویہ مناسب ہے۔“ وہ کہہ کر آگے بڑھنا چاہتی تھی تب ہی طغرل نے اس کی کلائی کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا تھا۔

اس کی گرفت میں اپنا ہاتھ دیکھ کر لمحے بھر کو وہ ساکت رہ گئی تھی۔ طغرل سے بھی یہ حرکت غیر ارادی طور پر ہوئی تھی۔
اس نے بھی ایک دم سٹپٹا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ پری کو اس کی یہ نازیبا حرکت بالکل نہ بھائی تھی۔ سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ آنکھوں میں ان غضب ناک شعلوں کا عکس تھا کہ وہ بری طرح جزبز ہوکر گویا ہوا۔

”سو…سوری!“

”کیا سوری؟ آپ نے جرأت کیسے کی میرا ہاتھ پکڑنے کی…؟“ اس کا مزاج کسی بپھری ہوئی موج کی مانند متلاتھم تھا۔

”میرامطلب ہے، میں نے تمہارا ہاتھ جان کر نہیں پکڑا۔
“اس کو اس طرح صفائی پیش کرنا بہت عجیب لگ رہا تھا، وہ جہاں اتنا عرصہ گزار کر آیا تھا وہاں ایسی بے تکلفی معیوب سمجھی نہیں جاتی تھی اور وہ اس کو برا سمجھتابھی نہیں تھا مگر ایسے مظاہرے وہ اپنے قریبی دوستوں اور کزنز کے ساتھ ہی روا رکھتا تھا۔ یہاں کے رسم و رواج اور تکلفات کو وہ بخوبی جانتا تھا۔ پری کے ساتھ ایسانادانستگی میں ہوا تھا۔

”جھوٹ مت بولیں آپ؟“ وہ بلند آواز میں چیخی۔

”میں جھوٹ کیوں بولوں گا؟“وہ حیران ہوا۔

”اپنی نیت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ کہہ رہے ہیں آپ!“

”کیا…! یہاں نیت کہاں سے آگئی؟“ اس کے معذرتی انداز میں اشتعال انگیز سنجیدگی آنے لگی تھی، جب کہ پری پہلے ہی شعلوں کا روپ دھارے ہوئے تھی۔

”جانتی ہوں میں آپ کو اچھی طرح!“

”اچھا! کیا جانتی ہو؟ بتاوٴ تاکہ مجھے بھی اپنے بارے میں پتا چل سکے کہ میں کیا ہوں اور کیسا ہوں؟“ اس کا لہجہ ناخوش گوار اور موڈ بگڑا ہوا تھا۔

”میں آپ سے بات کرنا پسند نہیں کرتی۔“ اس کا انداز ہنوز گستاخانہ تھا، وہ اس کی طرف سے سخت بدگمان تھی۔

”کیوں… کوئی تو وجہ ہوگی؟“ اس کی تلخ کلامی اماں جان کی سماعتوں تک بھی پہنچی تھی، اس وقت وہ نماز ادا کررہی تھیں، سلام پھیرتے ہی وہ ان کے درمیان چلی آئی تھیں۔

”کیا ہوا ہے، کیوں لڑرہے ہو دونوں؟“ انہوں نے دونوں کے بگڑے مزاجوں اور سرخ چہروں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”دادی جان! انہوں نے … ہاتھ پکڑا ہے میرا۔“

وہ جو اپنے آنسووٴں پر قابو کیے ہوئے تھی ان جیسی مہربان ہستی کو قریب دیکھ کر ان کے سینے سے لگ کر روتے ہوئے گویا ہوئی۔

وہاں موجود دونوں ہستیوں کی عجیب حالت ہوئی تھی۔ طغرل جو پہلے ہی اس کی ذہنی کثافت پر چراغ پا تھا پھر دادی کی آمد اور مستزاد پری کے بیان اور آنسووٴں نے اس کو ان کے سامنے صفائی پیش کرنے یا سمجھانے کی قابل ہی نہ چھوڑا تھا۔
اسے محسوس ہوا وہ زمین کی عمیق گہرائیوں میں دھنستا چلاجارہا ہو۔ لمحے بھر کو اماں جان کو محسوس ہوا سر پر چھت آن گری ہو اور ان کا وجود ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا ہو، یکلخت اندھیروں کی یلغار ہوگئی گھٹن و حبس اتنا بڑھ گیا کہ ان کو سانس لینے میں بھی دشواری ہونے لگی۔

”طغ… رل!“ انہوں نے پری کو سینے سے بھینچتے ہوئے دبے دبے انداز میں کہا، ان کے لہجے میں بے یقینی و بے اعتمادی تھی۔
”مجھے یقین نہیں آرہا ہے… طغرل… طغرل نے ایسی حرکت کی…؟ مجھے یہ امید نہیں ہے۔ میرا بچہ، میرا خون ایسا گھٹیا نہیں ہوسکتا۔ “ ان کی جہاندیدہ نگاہیں طغرل کے چہرے کو تکتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ اس کی روشن پیشانی، براوٴن آنکھوں سے چمکتی ذہانت اور وجیہہ چہرے پر ثبت شجاعت و شرافت اس کے کردار کو روشن کیے ہوئے تھی کسی چاند کی مانند۔

###

یہ کیا کہا تھا انہوں نے کہ وہ اس کی نگرانی کرتی تھیں کہ وہ گھر سے فرار نہ ہوجائے وردہ کی باتوں میں بہک کر…!!

”میں پاگل ہوجاوٴں گی پلیز… پلیز! آپ کو مجھ سے ذرا سی بھی ہمدردی ہے تو آپ مجھے وہ سب کچھ جو آپ جانتی ہیں، بناکسی ہچکچاہٹ کے بتادیں۔
“ وہ ہاتھ جوڑ کر منت بھرے انداز میں گویا ہوئی۔

”ٹھیک ہے، مجھے بھی وقت کی نزاکت کا احساس ہے اور نہ ہی میں کوئی سنسنی پیدا کرنے کی شوقین ہوں۔ میں نے آپ کو بتایا کہ مجھے ازخود ہی آپ کے گھرانے سے ایک انسیت و قربت کا احساس ہوتا ہے، مجھے جب بھی اپنے والدین اور اپنا گھر یاد آتا تو میں گیلری میں کھڑی ہوکر تمہارے گھر کو دیکھا کرتی تھی۔

اسی دوران میں نے دیکھا تم کالج اور کوچنگ سینٹر ایک لڑکی کے ساتھ جاتی ہو اور وہ لڑکی جس کا نام مجھے بعد میں معلوم ہے، وردہ ہے۔ وہ لڑکی مجھے پہلی نگاہ میں مشکوک محسوس ہوتی تھی اور پھر آپ سے اس نے جس تیزی و ہوشیاری سے دوستی کی، اس نے میرے گمان کو سچ کر دکھایا۔“ وہ کچھ توقف کے لیے چپ ہوئیں تو رجاء بول اٹھی۔

”لیکن … آپ کو کیسے معلوم ہوا وہ سب جو وردہ اور میرے درمیان تھا؟“

”وردہ کے ہاں جو ملازمہ کام کرتی ہے، وہ میرے ہاں کام بھی کرتی ہے۔
اس نے ہی ان لوگوں کی عجیب و غریب باتیں سن کر مجھے بتایا تھا کہ وہ لوگ اچھے نہیں ہیں۔ میں نے اس کو کہا وہ اپنے کام سے کام رکھے، کسی کے گھریلومعاملات کی ٹوہ نہ لے مگر جبب وردہ کی دوستی آپ سے کچھ زیادہ ہی شدت اختیار کرتی گئی اور وہ اپنے گھر آکر آپ کے بارے میں اپنے گھروالوں سے باتیں اور منصوبہ بندی کرتی تو اس ملازمہ سے رہا نہ گیا اور وہ چھپ کر ان کی باتیں سنتی رہی اور مجھے بھی مطلع کرنے لگی کیونکہ آپ کے گھرانے سے مجھے جو انسیت تھی اس سے وہ واقف تھی اور خود بھی آپ لوگوں کی بے حد عزت کرتی ہے۔

”منصوبہ بندی کیسی… کیا اس کے گھر والے بھی شامل تھے؟“ اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے استفسار کیا۔

”وہ ایک گروہ ہے جن کا طریقہ واردات یہ ہے کہ حسین و کم عمر لڑکیوں کو وہ مختلف طریقوں سے اپنے جال میں پھنسا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس میں سے ایک طریقہ وردہ نے آپ پر آزمایا جس چالاکی سے اس نے آپ سے دوستی کی اور پھر ایک دن اتفاقاً سنی سے ملوادیا، حالانکہ وہ اتفاق نہیں تھا، ایک منصوبہ تھا اور نہ ہی سنی کا رشتہ وردہ سے کزن کا تھا، دراصل وہ اس گروہ کا سرغنہ ہے۔
یہ لوگ لڑکیوں کو محبت کے جال میں جکڑتے ہیں، مہنگے مہنگے تحائف کے ذریعے انہیں للچاتے ہیں، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لڑکیاں ان کی محبت میں گھر چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں اور … یہ لوگ ان کو فروخت کرکے اچھی رقم حاصل کرکے اگلے شکار کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔“ وہ جو کہہ رہی تھیں کسی لفظ میں کوئی ابہام نہیں تھا۔

وردہ کی نیت پر قول و فعل پر اس کو اکثر شک سا ہونے لگتا تھا مگر پھر وہ یہ سوچ کر خود کو سرزنش کرتی کہ بھلا اس میں اس کا کیا مفاد … ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے کزن سے بہت محبت کرتی ہے، اس کی خاطر یہ سب کررہی ہے۔
اللہ نے اس کو بچالیا تھا، کسی نیکی کے عوض یا پھر ماں باپ کی دعا کے باعث… بچپن سے کٹر مذہبی ماحول میں پرورش پانے کے باوجود وہ وقتی طور پر بھٹک گئی تھی۔ وردہ اور سلمان کا پھیلایا ہوا جال ایسا دلفریب تھا کہ وہ اپنی حدود کو فراموش کرگئی۔ یہ بھی بھول گئی کہ اس کا تعلق اس گھرانے سے ہے جہاں پر عمل کا دارومدارنیت پر ہوتا ہے۔

اس کی نیت میں کھوٹ تھا، بغاوت اور منافقت آگئی تھی۔
یہی منافقت اس کو شیطان کے شر میں دھکیل گئی تھی، لیکن یہاں بھی اس کے والدین کے اللہ سے تعلقات نے اسے رسوائیوں و گناہوں کے بحر میں ڈوبتے ہوئے بچالا تھا، اس پر رحم و کرم کردیا تھا۔ وہ پھر رونے لگی یہ تشکر کے آنسو تھے… شرمندگی و ندامت کے آنسووٴں کا سیل رواں تھا، اس عظیم ترین ہستی کے حضور جو خود فرماتا ہے۔

”تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاوٴ گے۔

”مجھے معاف فرما میرے رب! مجھ عاصی کو معاف کردے، تیری رحمتوں کی ہر بوند سب پر یکساں برستی ہے، تیری نعمتوں کی سرفرازی سے پتھروں کی کوکھ میں رہنے والے کیڑے بھی محروم نہیں رہتے، ہر برگ و شجر تیری تسبیح بیان کرتا ہے۔ اے خالق کائنات ! تو اپنے ہر بندے سے محبت کرتا ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد… یہ تیری محبت ہے تو ہے جو مجھ جیسی بھٹکی ہوئی منافق بندی پر تونے بے حساب فضل کردیا۔
“ اس کی آنکھوں سے آنسووٴں کی بارش جاری تھی، وہ روئے جارہی تھی۔

”شام گہری ہونے لگی ہے قبل اس کے کہ رات پھیل جائے، آئیں میں آپ کو گھر چھوڑ آوٴں، ورنہ آپ کی والدہ پریشان ہوجائیں گی،“ وہ خود بھی بے آواز روتی رہی تھیں اس کے ساتھ … پھر کچھ دیر بعد کھڑی ہوکر گویا ہوئیں، لمحہ بھر کے لیے اس کی آنکھوں میں ہراس امڈ آیا تھا۔

”گھبراوٴ نہیں ! میں معاملہ سنبھال لوں گی۔ “ اس کو پریشان دیکھ کر تسلی دی

   1
0 Comments